بچوں کا ادب

شبنم کا تاج

دارتی نوٹ: کشور ناہید عہد حاضر کی ممتاز شاعرہ، سوانح نگار، مترجم، کالم نگار اور دانش ور ہیں۔ پاکستان میں بیداری خواتین کی تحریک کے حوالے سے عالمی سطح پر متحرک تخلیق کار اور پاکستانی عہد کی اسلوب ساز لکھاری کی حیثیت سے انہیں دنیا بھر میں بہت تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ملک کے سب سے بڑے قومی ادبی انعام کمالِ فن ایوارڈ سمیت آدم جی ادبی ایوارڈ، بچوں کے ادب پر یونیسکو انعام، بہترین ترجمہ ایوارڈ، منڈیلا پرائز اور حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔ کشور ناہید نے بچوں کے ادب میں بھی گراں قدر کام کیا ہے۔ ان کی کتاب جادو کی ہنڈیا میں شامل ان کی زیر نظر کہانی شبنم کا تاج کو شکریے کے ساتھ روشنی میگزین میں پیش کیا جا رہا ہے۔

کسی بادشاہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ بہت ضدی تھی۔ ایک دن صبح کو وہ باغ میں ٹہلنے کے لیے گئی تو اس نے پھول پتیوں پر شبنم کے قطرے چمکتے ہوئے دیکھے۔ شبنم کے یہ قطرے ان ہیروں سے زیادہ چمک دار اور خوب صورت تھے جو شہزادی کے پاس تھے۔

شہزادی سیدھی محل میں واپس آئی اور بادشاہ سے کہنے لگی: مجھے شبنم کا ایک تاج بنوا دیجئے۔ جب تک مجھے تاج نہیں ملے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی۔ یہ کہہ کر شہزادی نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور چادر اوڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئی۔

بادشاہ جانتا تھا کہ شبنم کے قطروں سے تاج نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر بھی اس نے شہزادی کی ضد پوری کرنے کے لئے شہر کے تمام سناروں کو بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ تین دن کے اندر اندر شبنم کے قطروں کا تاج بنا کر پیش کرو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔ بچارے سنار حیران پریشان کہ شبنم کا تاج کس طرح بنائیں۔

ان سناروں میں ایک بوڑھا سنار بہت عقل مند تھا۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ دوسرے دن صبح کو محل کے دروازے پر گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہی اسے شہزادی کے پاس لے گئے۔ بوڑھے سنار نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور بولا: حضور، میں آپ کا تاج بنانے کے لیے آیا ہوں۔ لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔

کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟ شہزادی نے کہا۔سنار بولا: آپ باغ میں چل کر مجھے شبنم کے وہ قطرے دے دیجئے جن کا آپ تاج بنوانا چاہتی ہیں۔ جو قطرے آپ پسند کر کے مجھے دیں گی میں فوراً ان کا تاج بنا دوں گا۔

شہزادی سنار کے ساتھ باغ میں گئی۔ پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ لیکن شہزادی نے جس قطرے کو بھی چھوا وہ اس کی انگلیوں پر پانی کی طرح بہہ گیا۔

تب شہزادی نے کھسیانی ہو کر بوڑھے سنار سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ اب بھی ایسی ضد نہیں کرے گی۔

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •